شجاع ‏آباد ‏کی ‏تعمیر ‏اور ‏حیران ‏کن ‏معلومات

چلیں آج اپ کو ایک بہت پرانے شہر تعارف کرواتا ہوں 
شجاع آباد ایک قدیم اور تاریخی شہر ہے 
اس کا حکمران نواب شجاع خان سدوزئی تھا 
اس نے 1750 میں شہر شجاع آباد کی بنیاد رکھی۔ اور 1767 سے 1762 کے درمیان قلعے کے گرد مظبوط دیواریں تعمیر کی۔
یہ شہر ملتان سے 45 کلومیٹر دور پاکستان کے دوسرے بڑے دریا دریائے چناب کے کنارے واقع ہے
 نواب شجاع خان احمد شاہ درانی جسے احمد شاہ ابدالی بھی کہا جاتا تھا کے دور میں دو بار ملتان کا گورنر بھی رہا۔
شجاع خان احمد شاہ ابدالی کا ہم عمر ہی تھا۔ مگر اندرونی بغاوتوں کے باعث شجاع خان کو  حاجی شریف سدوزئی کے ہاتھوں شکست کھا کر شجاع آباد آنا پڑا۔ اس نے اپنے دورے حکومت میں سکھوں اور خاص طور پر ڈاکوؤں اور لٹیروں کو خوب کھینچا۔ (باقی شجاع خان پر لمبی دو تین تحریروں میں کبھی تفصیل پیش کروں گا انشاء اللہ)

اس  شہر کے گرد مظبوط فصیلیں تیار کروا کر چاروں کونوں پر 40 فٹ گہری خندقیں کھودی گئی۔ اور مزے کی بات جب شجاع آباد کی بنیاد رکھی گئی تو اس کے ہر گھر کو قبلہ زخ بنوایا گیا۔  شجاع آباد کے قریب ایک گاؤں چک کے نام سے بھی آباد کیا گیا اور برطانوی دور میں اسی چک کی وجہ سے بہت سے چک آباد کئے گئے مگر پہلا چک اس خطے کا یہی تھا ۔
اور اس میں ایک ریلوے اسٹیشن بھی قائم کیا گیا جس کے بعد چک کا نام آر ایس چک پڑ گیا

اس کی تعمیر جب شروع ہوئی تو نواب صاحب کی بڑی محنت اور پیار شامل رہا ج پہلی دفعہ گورنر بنے تبھی اس کی تعمیر شروع کر دی۔
ملتان اور شجاع آباد کے درمیان اپنے بیٹے سکندر خان کے نام پر سکندر خان آباد کر دیا اور اپنی پیاری بیٹی خان بی بی کے نام پر چناب کے دائیں کنارے خان گڑھ آباد کر دیا۔ اور پھر چھوٹے بیٹے غضنفر کے نام پر خان گڑھ کے ساتھ غضنفر گڑھ آباد کر دیا۔

گو کہ یہ شہر اپنی بہت پرانی تاریخ رکھتا ہے نواب شجاع خان کی وفات کے بعد اسے بستی خیر پور میں دفن کیا گیا۔ وہاں ایک مظبوط پختہ احاطہ مظفر خان ان کے صاحبزادے نے تعمیر کروایا۔ اور کسی دور میں وہاں روزانہ قرآن و حدیث کا درس دیا جاتا تھا۔
سکھوں کے ملتان پر قبضے کے بعد جب انہوں نے شجاع آباد کا رخ کیا تو اس وقت کا کمانڈر کھڑک سنگھ نے شجاع خان کی قبر پر گولیاں چلائی اور کہا اٹھو نواب شجاع خان تم نے سکھوں کو بہت تنگ کیا تھا لو میں آ گیا اب اٹھو۔ گولیوں کے نشان اینٹوں کے بوسیدہ ہونے کی وجہ سے بہتر طور  نہیں دیکھے جا سکتے ۔۔

پرانے چار دیواری والے شہر کے چار بازار ہیں ۔ جو کہ ملتانی بازار ، ریل بازار، رشید شاہ  بازار، اور چھوٹکا بازار ہیں،ان کا مرکز چاندی چوک ہے ان چاروں رستوں پر موجود دروازے بند ہوتے تھے خیر اب تو سنا تھا ایک بھائی صاحب سے شجاع آباد کی ایک فالودے والی دوکان پر بیٹھ کر کہ یہ دروازے اب چنوٹ سے بن کر آئیں گے ہر کب یہ پتہ نہیں۔

اس علاقے کا موسم گرم رہتا ہے اور یوں یہ علاقہ کاشتکاری کے لئے بہت موضوع ہے ۔ بہترین فصلوں میں سے یہاں کپاس حاصل کی جاتی ہے اور پھلوں کے بادشاہ آموں کا یہ گھر ہے دسھری کالا چونسا ، سفید چونسا، انور لٹور جیسے بہترین آم یہاں عام پائے جاتے ہیں۔
شجاع آباد میں اردو بولنے اکثر مل جائیں گے مگر یہ علاقہ سرائیکی بولنے والوں پر مشتمل ہے ۔ اور مشہور شاعر شاکر شجاع آبادی بھی اسی علاقے کا ہے۔
تفریح کے لئے یہاں بس ایک خوبصورت پارک موجود ہے باقی آپ چناب کے کنارے شام کے وقت ڈھلتے سورج کے منظر کو دیکھ کر اور دریا میں بہتے پانی میں اپنا ہلکا عکس دیکھ کر ۔ جسم کو چھوتی ٹھنڈی ہوا آپ کو بہترین سکون قلب دے گی۔
✍️
Attii

X

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

زیارت کے بارے میں حیران کن معلومات جو شاید آپ کو معلوم نہیں

کوئٹہ جسے کسی دور میں لٹل پیرس کہا جاتا تھا